سری لنکا دیوالیہ ہونے کے قریب کیسے پہنچا، ماہرین نے بتادیا
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیرونی قرضوں اور ٹیکس سے متعلق حکومتی اقدامات بدترین معاشی بحران کی وجوہات میں شامل ہیں۔
سری لنکا جو جنوبی ایشیا کا اہم ملک ہے ان دنوں اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ اس وقت ملکی زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت کے پاس تیل درآمد کرنے کیلیے ڈالر نہیں بچے ہیں، بجلی کی عدم دستیابی نے ملک کے بڑے حصے کو تاریکی میں ڈبو رکھا ہے، ایندھن کیلیے راشن بندی جاری ہے اور اسی تناظر میں دو اموات بھی ہوچکی ہیں جس کے بعد سری لنکن حکومت نے پیٹرول پمپس پر بڑھتے ہوئے ہجوم کے پیش نظر نظم و نسق برقرار رکھنے کے لیے فوج بھی تعینات کر دی ہے۔ کھانے پینے کی اشیا کی قلت اور آسمان سے چھوتی قیمتوں نے لنکن شہریوں کی زندگی کو تباہ کردیا ہے جب کہ حال ہی میں حکومت سری لنکا نے کاغذ کے بحران کے باعث ملک بھر میں امتحانات ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یہ معاشی بحران دن بہ دن بڑھنا جارہا ہے اور سری لنکا حکومت اس بحران سے نمٹنے کیلیے مختلف ممالک سے امداد سمیت آئی ایم ایف کے پاس بھی جارہی ہے۔
سری لنکا کی آمدن کا بڑا حصہ اس کو سیاحت سے ہونیوالی آمدن ہے اور موجودہ معاشی بحران کے بارے میں بھی عام تاثر یہ ہے کہ کورونا عالمی وبا کے باعث لگنے والی پابندیوں سے سیاحت ختم ہوئی اور سری لنکا کو مالی بحران سے نبرد آزما ہونا پڑا۔
تاہم معاشی ماہرین کے نزدیک بیرونی قرضوں اور ٹیکس سے متعلق حکومت کے اقدامات سری لنکا کو درپیش تاریخ کے سنگین ترین بحران کے اسباب میں شامل ہیں۔ سری لنکا 2007 سے مسلسل غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے۔ مختلف ادوار میں لیا گیا یہ قرض 11 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے اور اس قرض میں سے سب زیادہ یعنی36.4 فی صد حصہ حکومت کے بین الاقوامی بانڈ سے حاصل کردہ قرضوں پر مشتمل ہے۔
سری لنکا کے غیر ملکی قرضوں میں 14 فی صد سے زائد ایشیائی ترقیاتی بینک سے لیا گیا ہے،جو ساڑھے چار ارب سے زائد ہے۔ اس قرض میں جاپان اور چین دونوں کے الگ الگ ساڑھے تین ارب سے زائد بھی واجب الادا ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت اور عالمی بینک، اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضے بھی شامل ہیں۔ پچھلے عشرے میں چین نے سری لنکا کو شاہراہوں، بندرگاہوں، ایک ایئرپورٹ کی تعمیر اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کے لیے پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کا قرضہ دیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر قرضے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے منصوبوں کے تحت دیئے گئے ہیں۔
بعض مبصرین کے مطابق سری لنکا کو درپیش معاشی مسائل کی بنیادی وجوہات میں حکومت کی اقتصادی پالیسیاں بھی شامل ہیں جن کے باعث کورونا وبا سے قبل ہی ملکی معیشت زوال کا شکار تھی۔
ادھر بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سری لنکا میں زرِ مبادلہ کے ذخائر 2.31 ارب ڈالر رہ گئے ہیں، جب کہ رواں برس اسے بیرونی قرضوں کی مد میں چار ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ ملک کے پاس ڈالرز کی کمی کی وجہ سے سری لنکا میں دودھ سمیت بنیادی غذائی اشیا کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اس کے علاوہ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں
کمی کے باعث عالمی مارکیٹ سے تیل کی خریداری میں کمی کی وجہ سے ملک کو ایندھن کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
ڈالرز کی کمی کی وجہ سے سری لنکا عراق اور ناروے میں اپنا سفارت خانہ اور آسٹریلیا میں قونصل خانہ بند کرچکا ہے۔ قبل ازیں گزشتہ برس دسمبر میں بھی سری لنکا ڈالر بحران کی وجہ سے نائیجیریا، جرمنی اور قبرص میں اپنے سفارتی مشن بند کرچکا ہے۔
from عالمی خبریں – ARYNews.tv | Urdu – Har Lamha Bakhabar https://ift.tt/QSp69Cs
No comments