Breaking News

سنسنی خیز اور گمراہ کن خبروں کو ’زرد صحافت‘ کیوں کہا جاتا ہے؟

آج آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر دنیا بھر میں سچائی کی کھوج اور اسے عوام تک پہنچانے کی جدوجہد کرنے والے صحافیوں کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔

اپنے فرض کو مقدم جاننے اور سچائی کو بلا خوف و خطر لوگوں تک پہنچانے والے صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، قید و بند کی صعوبتیں اٹھاتے ہیں، معاشی پریشانی و سماجی بائیکاٹ سہتے ہیں اور جانوں تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

لیکن ایسے عناصر کی بھی کمی نہیں جو ذاتی و ریاستی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے جعلی و گمراہ کن خبروں، مبالغہ آرائی اور پروپیگنڈے کو فروغ دیتے ہیں، سوشل میڈیا کے اس دور میں ایسے عناصر کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے، لیکن ساتھ ہی ان کی نشاندہی بھی آسان ہوگئی ہے۔

ایسی گمراہ کن صحافت کے لیے زرد صحافت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، یہ اصطلاح امریکا میں سب سے پہلے استعمال کی گئی اور اس سے مراد ہے کسی خبر کو چند مخصوص مقاصد کے لیے اس طرح پیش کرنا کہ وہ اپنی ہیئت کھو بیٹھے، یا پھر کسی خبر کے سنسنی خیز پہلو پر اتنا زور دینا کہ اصل خبر کی شکل ہی مسخ ہو جائے اور خبر کا اہم پہلو قاری کی نظر سے اوجھل ہو جائے۔

زرد صحافت میں اصل خبر پر مبالغے کا اتنا اثر ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے، ادھورے سچ یا گمراہ کن معلومات کو وقتی فائدے کے لیے، بغیر کسی تحقیق اور صداقت کے پھیلا دینا، اور اس کے ذریعے ایک رائے عامہ ہموار کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔

دراصل یہ اصطلاح انیسویں صدی کے اواخر میں وضع ہوئی تھی جب نیویارک کے اخبارات کے رپورٹرز اپنے اخبارات کی اشاعت بڑهانے کے لیے وحشت ناک اور ہیجان انگیز رپورٹنگ کرتے تھے۔

یہ اشاعتی جنگ اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب بعض اخبارات نے کیوبا میں ہسپانوی فوج کے مظالم بڑها چڑها کر شائع کیے۔

اس اشاعتی جنگ میں دو بڑے ادارے ایک دوسرے کے مدمقابل تھے، نیویارک ورلڈ اور نیویارک جرنل، ان دونوں اخبارات کی ملکیت دو بااثر اور دولت مند کے افراد کے ہاتھ میں تھی یعنی نیویارک ورلڈ کے پبلشر جوزف پلٹزر، اور نیویارک جرنل کے پبلشر ولیم روڈولف ہیئرسٹ، دونوں سیاست میں بھی متحرک تھے لہٰذا ان کے درمیان ذاتی مفادات کی مقابلے بازی نے ایک جنگ کو جنم دے دیا۔

دونوں اخبارات نے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے اس قدر اوچھے تھکنڈے استعمال کیے کہ سنہ 1898 میں ایک برطانوی میگزین نے لکھا، ’پوری امریکی صحافت زرد صحافت نہیں، لیکن زرد صحافت سب کی سب امریکی ہے‘۔

’زرد‘ ہی کیوں؟

لیکن اس غیر معیاری صحافت کو زرد صحافت کا نام ہی کیوں دیا گیا؟

اس کی جڑیں اس ’یلو کڈ‘ سے جا ملتی ہیں جو اس دور میں عوام میں بے حد مقبول تھا۔

سنہ 1895 میں امریکا کے ایک معروف کارٹونسٹ رچرڈ ایف آؤٹ کلٹ نے ایک کامک کردار تخلیق کیا، یہ ایک بچے کا کردار تھا جو زرد لباس پہنے ذومعنی اور طنزیہ گفتگو کرجاتا تھا۔

یہ کامک کردار جلد ہی عوام میں بے حد مقبول ہوگیا اور لوگ اسے یلو کڈ کے نام سے پکارنے لگے۔

رچرڈ نے یہ کامک سیریز نیویارک ورلڈ کے لیے تخلیق کی، لیکن جلد ہی نیویارک جرنل بھی اس سے ملتی جلتی بچے کی تصاویر پر مشتمل کامکس شائع کرنے لگا جس کے بعد دونوں اخبارات کے درمیان اس کامکس کے حقوق کا تنازعہ کھڑا ہوگیا۔

دونوں ادارے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے سطحی حدوں تک جا پہنچے، تبھی دی نیویارک پریس کے ایڈیٹر ایرون وارڈ مین نے دونوں کو ’یلو پریس‘ قرار دیا جو زرد لباس میں ملبوس بچے کی ملکیت پر لڑ رہے تھے، لیکن ان کی لڑائی نے ایسی غیر معیاری طریقہ صحافت کو جنم دیا جو آج تک حقیقی صحافت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

یہیں سے پہلی بار استعمال کی جانے والی یلو پریس کی اصطلاح یلو جرنلزم یا زرد صحافت میں بدل کر وسیع معنوں میں مخصوص صحافت کی تعریف بن گئی۔



from عالمی خبریں Archives - ARYNews.tv | Urdu - Har Lamha Bakhabar https://ift.tt/4Ggh8Ou

No comments