ملیریا کا خاتمہ مچھر سے، لیکن کیسے ؟ انوکھا طریقہ
ملیریا کی بیماری ایک مخصوص قسم کے مچھر اینو فلیس کی مادہ کے ذریعے پھیلتی ہے، یہ کوئی ایسی متعدی بیماری نہیں جو ایک شخص سے دوسرے میں پھیل سکے۔
ملیریا پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ مچھروں کے کاٹنے سے جتنا ممکن ہو محفوظ رہا جائے۔ یہ مچھر بھگانے والے، حفاظتی لباس پہن کر اور مچھر دانی کے نیچے سو کر کیا جاسکتا ہے۔
اس بیماری کے تدارک کیلئے محققین دن رات کوششوں میں مصروف عمل ہیں، اسی سلسلے میں افریقہ کے ملک جبوتی میں ملیریا کی بیماری سے لڑنے کے لیے ایک انوکھا طریقہ استعمال کیا گیا۔
حیرت انگیز طور پر ملیریا کے خاتمے کیلئے مچھروں کو مارنے کے بجائے ہزاروں مخصوص مچھروں پر مشتمل بہت بڑی تعداد کو فضا میں چھوڑا گیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ان مچھروں میں برطانوی بائیو ٹیکنالوجی کمپنی اوکسی ٹیک نے جینیاتی تبدیلی کی ہے اور یہ کاٹتے نہیں بلکہ ان کی جینیات میں ایسی تبدیلی کردی گئی ہے کہ یہ صرف مادہ مچھروں کو بڑا ہونے سے پہلے ہی ہلاک کر دیتے ہیں۔
امریکی سینٹر برائے ڈیزیز کنٹرول کے مطابق اس تکنیک کا استعمال برازیل، پاناما اور انڈیا میں کیا جا چکا ہے اور 2019 سے اب تک دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب ایسے مچھر ہوا میں چھوڑے جا چکے ہیں۔
افریقی ملک جبوتی میں پہلی بار گزشتہ روز ایک مضافاتی علاقے میں ان مچھروں کو چھوڑا گیا جو اوکسی ٹیک اور جبوتی حکومت کے ساتھ ساتھ ایک غیر سرکاری تنظیم کے اشتراک سے ممکن ہوا۔
اوکسی ٹیک کے سربراہ گرے فرانڈسن نے بی بی سی کو بتایا کہ لیبارٹری میں تیار ہونے والے ان مچھروں کی جینیات میں ایسی تبدیلی کردی گئی ہے کہ مادہ مچھر کا بچہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا۔
انہوں نے بتایا کہ صرف نر مچھر ہی زندہ رہتا ہے لیکن اس منصوبے کے پیچھے کام کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق وہ بھی ایک مخصوص وقت کے بعد مر جاتے ہیں۔
جبوتی میں یہ منصوبہ دو سال قبل شروع کیا گیا تھا تاکہ ’اینوفیلیس سٹیفینزی‘ نامی مچھروں کی نسل کو ختم کیا جاسکے جو 2012 میں نمودار ہوئی تھی۔
اہم بات یہ ہے کہ جبوتی ملیریا کا مکمل خاتمہ کرنے ہی والا تھا جب اچانک 30 نئے کیس سامنے آئے اور پھر ملک میں ملیریا سے متاثرہ افراد کی تعداد 2020 میں 73 ہزار تک جا پہنچی۔
from ARY News Urdu- International- عالمی خبریں https://ift.tt/oEx3vYk
No comments