دنیا سے بے خبر40 سال تک جنگل میں زندگی گزارنے والا خاندان
دوسری جنگ عظیم کے موقع پر جان بچانے کیلئے دنیا سے کنارا کشی اختیار کرنے والے خاندان نے 33 سال سائیبیریا کے گھنے جنگل میں گزار دیے۔
ایک سنسان اور غیر آباد علاقے میں جنگلی جانوروں کے درمیان رہنے والا یہ خاندان بغیر خوراک کے کیسے زندہ رہا؟ جبکہ اس دوران اس کا بیرونی دنیا سے کسی قسم کا کوئی رابطہ یا تعلق بھی نہیں تھا۔
غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سائبیریا کا تائیگا جنگل کرہ ارض کے بڑے سبزہ زاروں میں سے ایک ہے، ہزاروں میل پر محیط گھنا یہ جنگل پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے، جہاں ستمبر سے مئی تک موسم سرما کی برفباری جاری رہتی ہے، ان جنگلوں میں عام طور پر خوخوار ریچھ اور بھیڑیے ہوتے ہیں۔
چنانچہ 1978 میں جب روسی ماہرین ارضیات کی ایک ٹیم معدنیات کی تلاش میں اس مقام پر پہنچی تو ان کو اپنے ہیلی کاپٹر سے انسانی زندگی کے آثار نظر آئے۔ انہوں نے دریا کے پاس ایک ایسی انسانی بستی دیکھی جس کا کوئی نام نہیں تھا اور اس جنگل میں ایک ایسی صاف ستھری جگہ تھی جہاں مختلف فصلیں لگائی گئی تھیں۔
چاروں ماہر ارضیات ہیلی کاپٹر سے اترے پہاڑی کے کنارے پر ہی بستی سے چند میل کے فاصلے پر اپنا پڑاؤ ڈال لیا اور اس بستی مکینوں سے ملنے کیلئے مذکورہ مقام پر پہنچ گئے۔
ماہر ارضیات گیلینا پسمی نسکایا نے بتایا کہ جب وہ وہاں رہنے والے اس شخص سے ملی تو وہ بہت خوفزدہ نظر آرہا تھا تو میں نے اسے سلام کیا اور کہا کہ ہم آپ ہی سے ملنے آئے ہیں!بوڑھے نے پہلے تو کوئی جواب نہیں دیا لیکن آخر کار ہم نے ایک نرم اور مدھم سی آواز سنی کہ اچھا چونکہ تم نے اتنا لمبا سفر کیا ہے اس لیے تم اندر آسکتے ہو۔
ڈیلی اسٹار کی رپورٹ کے مطابق بات چیت کرنے پر پتہ چلا کہ وہ آدمی اپنے خاندان کے ساتھ، ایک چھوٹے سے سیاہ شیڈ میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتا تھا، جس میں درختوں کی چھال سے بنے ہوئے ایک ٹوکرے میں آلو رکھے ہوئے تھے۔
گفتگو کے دوران جب اس شخص نے اپنی کہانی بیان کی تو ہم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، اس شخص نے حیرت انگیز انکشاف کیا کہ وہ کس طرح اس جنگل کے بیچ میں آکر آباد ہوئے۔ کارپ لائیکوف روسی زبان بولتے تھے اور ان کا تعلق بنیاد پرست روسی آرتھو ڈوکس عیسائیوں کے ایک فرقے سے تھا جو طویل عرصے سے کمیونسٹوں کے ہاتھوں ستائے گئے تھے۔
اس نے بتایا کہ سال1936میں ایک دن ایک کمیونسٹ پارٹی کے لوگوں نے کارپ کے بھائی کو اس وقت گولی مار دی جب وہ دونوں ایک ساتھ کھیتوں میں کام کر رہے تھے، اس بات سے خوفزدہ ہوکر کارپ نے اپنے خاندان کو جمع کیا اور جنگل کی جانب بھاگ گیا۔
خاندان میں اس کی بیوی اکولینا کم عمر بیٹا ساوین اور بیٹی نتالیہ شامل تھی انہوں نے کچھ پھلوں اور سبزیوں کے بیج لیے اور جنگل میں جاکر چھپ گئے یہاں تک کہ وہ اس دور دراز جگہ پر پہنچ گئے جسے ماہرین ارضیات نے فضا سے دیکھا تھا۔ اس خاندان کے دو سب سے چھوٹے بچے جو اسی جنگل میں پیدا ہوئے انہوں نے گھر کے افراد کے علاوہ کسی اور انسان کو نہیں دیکھا۔
ان کے پڑھنے کی واحد چیز چند مذہبی کتابیں اور ایک قدیم خاندانی بائبل تھی، اکولینا نے اپنے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے لیے انجیل کا استعمال کیا تھا۔ ان کی زندگی کی مشکلات ناقابل بیان تھیں، اس خاندان نے درختوں کی چھال سے جوتے بنائے اور اپنے کپڑوں کو بھنگ کے پتوں سے پیوند کیا تھا جو انہوں نے بیج سے اگائے تھے۔ انہیں اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ دوسری جنگ عظیم ختم ہوچکی ہے یا انسان چاند پر اترچکا ہے۔
لائیکوف سائبیریا کے کڑک دار سردیوں میں ننگے پاؤں کئی دن تک شکار کرتا تھا، بندوقوں یا تیر کمانوں کے بغیر وہ اپنے شکار کا پہاڑوں پر اس وقت تک پیچھا کرتا تھا جب تک کہ وہ تھک کر مر نہ جائے۔ اس کی بیوی اکولینا 1961میں بھوک سے مرگئی تھی جب برفباری کی وجہ سے ان کی تمام فصلیں تباہ ہوچکی تھیں۔
جب اس خاندان کو ان ماہر ارضیات پر کچھ بھروسہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ وہ سب سے پہلے صرف ایک ہی تحفہ قبول کریں گے وہ نمک تھا، کارپ نے بتایا کہ نمک کے بغیر رہنا "حقیقی اذیت” تھا۔
سال1981 میں ان کے چار میں سے تین بچوں کی موت ہوگئی جس کی وجہ نمونیا یا دیگر بیماریاں تھیں، ماہرین ارضیات کی جانب سے جب انہیں ان کے پرانے گاؤں لے جانے کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ بعد ازاں کارپ 1988 میں وہیں انتقال کرگئے، ستر سالہ آگافیہ اب بھی وہیں رہتی ہے اور اسی جنگل میں وہ اپنی پوری زندگی گزارنا چاہتی ہے۔
from عالمی خبریں Archives - ARYNews.tv | Urdu - Har Lamha Bakhabar https://ift.tt/ndafSEG
No comments